Thursday, 02 May 2024, 10:10:18 pm
سینیٹ میں19-2018ء کے وفاقی بجٹ پر بحث کا آغاز
April 30, 2018

 پیر کے روز سینیٹ میں 2018-19ء کے بجٹ پر بحث شروع ہوئی۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شیری رحمان نے بحث کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ ملک پر بھاری قرضوں کا بوجھ ہے جن کی ادائیگی مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ نئے بجٹ میں بڑے کاروباری اداروں کو سہولت دی گئی ہے جبکہ غریبوں کیلئے سہولت کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس سے ملازمت پیشہ طبقے پر اضافی بوجھ پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ میں اس ادارے کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کیلئے جدوجہد جاری رکھے گی۔پیپلزپارٹی کے سینیٹر سکندر مندھرو نے کہا کہ بجٹ کے اعداد و شمار سے معیشت کی اصل صورتحال کی عکاسی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ترقی کی شرح میں اضافہ ظاہر کیا گیا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ غریبوں کے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں نے اسے غریب مخالف بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے غریب طبقے پر اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ریونیو کے بارے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی سینیٹر ہارون اختر خان نے کہا کہ حزب اختلاف کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اس سے دنیا میں ملک کا منفی تشخص ابھرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ معیشت کا سب سے بڑا اشاریہ مجموعی ملکی پیداوار ہے اور اس کی شرح نمو معیشت کے استحکام کی عکاسی کرتی ہے جو تین اعشاریہ تین فیصد سے بڑھ کر پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد ہو سکتی ہے۔انہوں نے تفصیلاً بتایا کہ دو ہزار تیرہ میں صنعتوں کی ترقی کی شرح اعشاریہ سات فیصد تھی جو 2018ء میں بڑھ کر پانچ فیصد ہو گئی۔ اسی مدت میں زراعت میں دواعشاریہ چھ آٹھ فیصد سے تین اعشاریہ آٹھ ایک فیصد اضافہ ہوا اور خدمات کے شعبے میں پانچ اعشاریہ ایک تین فیصد سے بڑھ کر چھ اعشاریہ چار تین فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح گوشت کی پیداوار 21 فیصد سے بڑھ کر پانچ فیصد ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں صارفین کے قیمتوں کے اشاریے آٹھ فیصد تھے جو اب تین اعشاریہ سات آٹھ فیصد ہیں۔ دو ہزار تیرہ میں محنت کشوں کی ترسیلات زر 13 ارب ڈالر تھیں جو اب بڑھ کر بیس ارب ڈالر سے زائد ہو گئی ہیں۔مشیر نے کہا کہ اب بھی ہمارے پاس 17 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں فی کس آمدنی 1333 ڈالر سے بڑھ کر 1640 ڈالر ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں سٹاک مارکیٹ 19916 پوائنٹس پر تھی اور اب سیاسی انتشار کے باوجود یہ بڑھ کر 45877 پوائنٹس پر پہنچ چکی ہے اور سرمایہ کاری 51 ارب ڈالر سے بڑھ کر 80 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گئی ہے۔ہارون اختر خان نے کہا کہ معاشی اشاریوں میں تیزی سے ہوتا ہوا اضافہ معاشی ڈھانچے کی صحت مند تصویر پیش کرتا ہے۔مشیر نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت توانائی کی صورتحال میں بہتری کے لئے اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے مختلف منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی گرڈ میں 12000میگاواٹ بجلی شامل کی گئی ہے اور آنے والے مہینوں میں 10,000 میگاواٹ مزید بجلی شامل کی جائے گی۔ایوان کا اجلاس بدھ سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

Error
Whoops, looks like something went wrong.