Saturday, 27 July 2024, 11:30:05 am
نامور پشتو شاعر،ادیب اور بابائےِپشتو غزل امیر حمزہ خان شنواری کی تیسری برسی
February 18, 2024

 نامور پشتو شاعر ، ادیب ، ناول نگار ، مترجم اور بابائےِ پشتو غزل امیر حمزہ خان شنواری ( 1907 تا 1994 ) کی تیسویں برسی اتوار کو منائی گئی۔

امیر حمزہ شنواری لنڈی کوٹل میں پیدا ہوئے ۔ میٹرک کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور فنونِ لطیفہ کی طرف راغب ہوگئے ۔

1935 میں آل انڈیا ریڈیو پشاور کے لیے پہلا پشتو ڈرامہ 'زمیندار' لکھا اور 1941 میں بمبئی سے ریلیز ہونے والی پہلی پشتو فلم 'لیلی مجنوں' کی کہانی ، مکالمے اور گانوں کے بول لکھنے کے علاوہ اس کی ہدایت کاری اور پلے بیک سنگر تک کے فرائض بھی سرانجام دئیے ۔

قیامِ پاکستان کے بعد حمزہ شنواری نے پشاور ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے ، فیچرز اور تقریریں لکھیں ۔ بحیثیت مترجم انہوں نے رحمان بابا کی 204 غزلوں کا اردو جب کہ علامہ محمد اقبال کے 'جاوید نامہ' اور 'ارمغان حجاز' کا پشتو میں منظوم ترجمہ کیا ۔

انھوں نے 'نہج البلاغہ' کا بھی پشتو زبان میں ترجمہ کیا ۔امیر حمزہ شنواری نے پشتو زبان کی ہر صنف میں کام کیا اور تصوف ، شاعری ، نفسیات ،ثقافت پر بہت سی نثری اور شعری کتب یادگار چھوڑیں ۔ ان کی تصنیف 'تجلیاتِ محمدیہ' کو تصوف کی پشتو زبان میں لکھی جانے والی جاندار کتاب شمار کیا جاتا ہے ۔ امیر حمزہ شنواری کو احتراما 'حمزہ بابا' یا 'بابائے پشتو غزل' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔

یہ خیال ہے کہ پشتو شاعری میں غزل انھوں نے ہی متعارف کرائی ۔امیر حمزہ انگریزی روزنامہ 'خیبر میل' کے پشتو صفحے کے انچارج بھی رہے اور اس کے لیے روزانہ مختلف معاشرتی اور ادبی موضوعات پر 'ژور فکرونہ' (گہری سوچیں) کے نام سے کالم بھی لکھتے رہے ۔

حکومتِ پاکستان نے امیر حمزہ شنواری کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں 'صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی' اور 'ستارہ امتیاز' بھی عطا کیا ۔امیر حمزہ شنواری 18 فروری 1994 کے دن انتقال کر گئے اور انھیں اپنے آبائی علاقے میں ہی دفنایا گیا ۔ آج بھی انھیں ایک عظیم صوفی شاعر تسلیم کرنے والے ہزاروں افراد ہر سال ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں ۔